آج سیالکوٹ کے نواحی قصبے ڈسکہ میں وقوع پذیر ہونے والے افسوسناک واقعے، جس میں پولیس کی براہ راست فائرنگ سے دو وکلاءجاں بحق ہوگئے تھے، وزیر اعلیٰ پنجاب کی گڈ گورننس پر ایک بار پھر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ آخری اطلاعات آنے تک ڈسکہ میں حالات بدستور کشیدہ تھے اور آج سہ پہر کو لاہور ہائیکورٹ نے حالات کی سنگینی کے پیش نظر فوری طور پر رینجرز کو طلب کرنے کا حکم بھی دیا تھا جبکہ موصولہ اطلاعات کے مطابق سٹی تھانے اور اس سے ملحقہ علاقوں میں وکلائ، مشتعل مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں جاری تھیں جن میں مظاہرین کی جانب سے پتھراﺅ اور پولیس کی طرف سے شیلنگ کا سلسلہ بھی جاری تھا ۔ با خبر حلقوں نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ برس سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں پولیس کے ہاتھوں 14افراد ہلاک اور 90 سے زائد زخمی ہونے کے بعد پنجاب کی صوبائی حکومت نے عارضی طور پر ہوش کے ناخن لینے کی پالیسی پر عمل شروع کیا تھا کیونکہ جوڈیشل کمیشن نے واقعے کی ذمہ داری براہ راست اعلیٰ حکومتی شخصیات پر عاید کی تھی تاہم پنجاب کے زیرک وزیر اعلیٰ نے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو دراز میں ڈال کر ایک نئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنائی جس میں پولیس کے ہمراہ آئی بی اور آئی ایس آئی کے نمائندے بھی شامل کیے گئے۔ بعض حلقوں کے مطابق اس جے آئی ٹی کی سربراہی میاں خاندان کے منظور نظر پولیس افسر کو جس مقصد کے لیے سونپی گئی تھی، وہ اس نے بحسن و خوبی پورا کردیا اور جے آئی ٹی نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف، سابق وزیر قانون رانا ثناءاللہ سمیت تمام اعلیٰ حکومتی شخصیات کو کلین چٹ دے دی۔ اسی موضوع پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان کے معروف سابق سفارتکار اور بیوروکریٹ ظفر ہلالی نے کہا تھا کہ اگر ایسی تحقیقات ہی کرنا تھیں تو آئی بی اور آئی ایس آئی کے نمائندوں کو اس جے آئی ٹی میں منہ کالا کرانے کی ضرورت تھی۔ دریں اثناءبعض حلقوں کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے کے بعد پنجاب حکومت نے ایک بار پھر پولیس کو طاقت کا اندھا دھند استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے اور اسی اجازت کے باعث آج کا سانحہ رونما ہوا ہے۔ عوامی حلقوں نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی بد نصیبی ہے کہ چاروں وزرائے اعلیٰ ایسے “مسائل” کا شکار ہیں جن کی “مثال” دنیا میں نہیں ملتی۔ کے پی کے وزیر اعلیٰ کی سب سے بڑی مصروفیت وفاقی حکومت کے خلاف دھرنے میں شرکت رہی ہے جبکہ سندھ کے وزیر اعلیٰ انتہائی حد تک عمر رسیدہ ہونے کے باعث کم ہی حالت بیداری میں پائے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے صوبائی معاملات باامر مجبوری متعدد دیگر افراد کو چلانا پڑتے ہیں جن میں سابق صدر اور ان کی اہلیہ بھی شامل ہیں۔ دوسری طرف بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ہیں جو صوبے میں امن و امان کی مخدوش صورحال کے باعث کہیں آ جا بھی نہیں سکتے تو یہاں پنجاب کے وزیر اعلیٰ ترکی، سعودی عرب اور چین کے لگاتار دوروں کے باعث اپنے صوبے میں کم ہی نظر آتے ہیں۔ جو وقت ان غیر ملکی دوروں سے بچ جائے، وہ وفاقی معاملات سلجھانے میں صرف ہوجاتا ہے۔ یہ تو صوبے کی خوش قسمتی ہے کہ یہیاں معاملات اس سنگیں نوعیت کے نہیں جیسے بلوچستان کو درپیش ہیں لیکن اس کے باوجود جس گڈ گورننس کا دعویٰ کیا جاتا ہے، اس کا دور دور تک شائبہ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ آج کے ڈسکہ واقعے کے متعلق صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ نے آج کے واقعے کا نوٹس لے لیا ہے اور عین ممکن ہے کہ اس پر بھی جے آئی ٹی بنا دی جائے کیونکہ ہمارے ملک میں بھیڑ چال ہی عام چلن ہے۔ پہلے ہر معاملے کے لیے کمیٹیاں بنانے کا رواج تھا، پھر انکوائری کمیشن بنانے کا فیشن ہوا اور آج کل جے آئی ٹی “ان” ہے اور ہو بھی کیوں نہ کہ جب فیصلے اہم شخصیات کی مرضی سے آنے ہوں تو ایسی ہی تحقیقاتی کمیٹی بنانے میں کیا امر مانع ہے۔ تاہم سیاسی مبصرین نے صوبہ پنجاب میں حکومتی اداروں کی بے لگامی کو حکومت کے لیے بد شگونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو حالات کو دانشمندی سے کنٹرول کرنا چاہیے نا کہ طاقت سے۔ آج جو کچھ ڈسکہ میں ہوا، کل کسی اور جگہ بھی ہوسکتا ہے اور اگر ہی ہوتا رہا تو مسلم لیگ ن کے لیے کاروبار حکومت چلانا مشکل تر ہوتا چلا جائے گا۔