پیپلز پارٹی کی لاکھ کوششوں اور ڈی ایس پی الطاف حسین کی رپورٹ کے باوجود ڈاکٹر عاصم حسین کو انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے منتظم جج نعمت اللہ پھلپوٹو کی عدالت میں پیش کیا گیا.
سماعت کے دوران تفتیشی افسر ڈی ایس پی الطاف حسین نے عدالت میں رپورٹ پیش کی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ تفتیش کے دوران ڈاکٹر عاصم پر الزامات کے شواہد نہیں ملے.
رپورٹ کے مطابق سابق تفتیشی افسر نے جانبداری کا مظاہرہ کیا. وہ اپنے الزامات کی تائید میں ثبوت پیش نہیں کرسکے، کیس میں حقائق چھپائے گئے اور زمینی حقائق کو مسخ کیا گیا جبکہ سابق تفتیشی افسر اور گواہوں نے بھی تعاون نہیں کیا۔
تفتیشی افسر کے مطابق کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 497 بی کے تحت جرم ثابت نہ ہونے پر مقدمہ اے کلاس کیا گیا اور ڈاکٹر عاصم کو بری کرنے کا فیصلہ کیا گیا.
واضح رہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف کرپشن اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزامات پر کراچی کے نارتھ ناظم آباد تھانے میں انسداد دہشت گردی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا تاہم بعد ازاں پولیس نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف دہشت گردی سے متعلق ثبوت نہیں ملے.
اس حوالے سے ایس ایس پی انویسٹی گیشن عرب مہر نے بتایا تھا کہ ’ہم نے تحقیقات مکمل کرلی ہیں۔ تحقیقاتی افسر (آئی او) نے مجھے رپورٹ پیش کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پولیس کو اب تک ڈاکٹر عاصم کے خلاف دہشت گردی سے متعلق ثبوت نہیں ملے ہیں۔ اس لیے ہم ایف آئی آر سے ان الزامات کو نکال رہے ہیں۔‘
دہشت گردی کے الزامات ایف آئی آر سے نکالے جانے کے بعد ڈاکٹر عاصم کو پولیس نے رہا کردیا تھا تاہم نیب نے کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کے لیے ڈاکٹر عاصم کی تحویل مانگ لی تھی.
آج مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران ڈاکٹر عاصم کے وکیل انور مسعود خان نے عدالت کو بتایا کہ کچھ عناصر انھیں ڈاکٹر عاصم کا کیس لڑنے پر دھمکیاں دے رہے ہیں. دوسری جانب ڈاکٹر عاصم نے عدالت کے روبرو بیان دیا کہ رینجرز نے ہسپتال سے گن پوائنٹ پر ریکارڈ اٹھایا اور ان کے خلاف جعلی ثبوت پیش کیے گئے.
ساتھ ہی انھوں نے سوال کیا کہ بتایا جائے کہ ہسپتال میں کس ڈاکٹر نے دہشت گردوں کا علاج کیا.
سابق مشیر پیٹرولیم نے کہا کہ ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے، ان کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے.
میڈیا ٹرائل کا شکوہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عاصم کا کہنا تھا "میں بھی فوجی ہوں اور تضحیک آمیز رویئے پر میرا دل دکھتا ہے.”
سماعت کے بعد عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے تفتیشی افسر کی رپورٹ مسترد کردی اور حکم دیا کہ ڈاکٹر عاصم کو حراست میں لے کر انسداد دہشت گردی عدالت نمبر دو میں پیش کیا جائے.
عدالتی فیصلے کے مطابق اب ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف کرپشن اور دہشت گردی کیسز ایک ساتھ چلیں گے.
یاد رہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین کو رواں برس 26 اگست کو کرپشن اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزامات کے تحت اُس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب وہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن سندھ کے ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
27 اگست کو رینجرز نے انھیں کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرکے 90 روز کا ریمانڈ حاصل کیا تھا اور ریمانڈ مکمل ہونے پر 25 نومبر کو پولیس کے حوالے کردیا تھا۔
پولیس کی تفتیش مکمل ہونے پر نیب نے ڈاکٹر عاصم کو اپنی تحویل میں لے کر 17 دسمبر کو احتساب عدالت سے ان کا دوسری بار 7 روزہ ریمانڈ لیا تھا۔
ڈاکٹر عاصم حسین، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف زرداری کے قریبی ساتھی ہیں اور ان کی گرفتاری کو کراچی میں جاری آپریشن کے دوران پیپلز پارٹی قیادت کے خلاف پہلا بڑا ایکشن قرار دیا گیا۔
ڈاکٹر عاصم حسین 2009ء میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سندھ سے سینیٹر منتخب ہوئے، انھوں نے 2012ء تک وزیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل اور وزیراعظم کے مشیر برائے پیٹرولیم کے فرائض انجام دیئے
2012ء میں وہ سینیٹ سے اس وقت مستعفی ہو گئے تھے جب سپریم کورٹ نے دہری شہریت پر اراکین پارلیمان کو نا اہل قرار دیا تھا، ذرائع کا کہنا تھا کہ ان کے پاس کینیڈا کی بھی شہریت تھی۔
پیپلز پارٹی نے 2013ء کے عام انتخابات کے بعد انھیں سندھ کے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا چیئرمین مقرر کیا تھا۔