آج پھر یورپی سیاستدان، صحافی اور ماہرِ تعلیم یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیوں نوجوان مسلمان اتنی تعداد میں انتہا پسندی کی طرف راغب ہیں۔
مذہب، معاشی محرومی اور مغرب کی خارجہ پالیسی سبھی انھیں جہادی سوچ کی طرف کھینچنے کے ممکنہ ذمہ دار ہو سکتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ جس ایک بات پر متفق ہیں وہ یہ ہے کہ مغرب کو پتہ نہیں کہ وہ کس طرح نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے متعلق ردِ عمل ظاہر کرے۔
یہ الجھن مغرب کے عرب دنیا میں جمہوریت کے متعلق غیر یقینی رویے میں صاف نظر آتی ہے۔ 2003ء میں عراق پر جارحیت سے کچھ دن پہلے اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے کہا تھا کہ ’صدام کا تختہ الٹنے کے بعد عراق مشرقِ وسطیٰ میں جمہوریت کا روشن مینار بن جائے گا۔‘
نیو کونز یا نو آموز قدامت پسند سمجھتے ہیں کہ جمہوریت کے فوائد اتنے واضح ہیں کہ اگر عراقیوں کو موقع ملے تو فوراً اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے جمہوریت اپنا لیں گے۔ یہ سویت یونین کے بعد مشرقی یورپ میں کام کر گئی تو مشرقِ وسطیٰ میں یہ کام کیوں نہیں آئے گی؟
لیکن مغربی لبرل ازم کو اپنانے کی بجائے عراق خانہ جنگی میں دھنستا چلا گیا۔
اور اگر عراق کی حالت سے کسی کو یہ گمان ہوا ہو کہ مغرب میں جمہوریت لاگو کرنا ممکن نہیں ہے تو ’عرب سپرنگ‘ کے مسئلے نے اس بات کی طرف بھی توجہ مبذول کروائی ہے کہ کیا واقعی مغرب مشرقِ وسطیٰ میں جمہوریت لانا چاہتا ہے۔ لیکن حقیقت میں وہ خوف زدہ ہے کہ جمہوریت یہاں کیا لائے گی؟
کئی دہائیوں سے کئی مغربی لبرلز کی طرح جہادی بھی کہتے رہے ہیں کہ مغرب کا جمہوریت کے متعلق لامتناہی خطیبانہ رویہ کھوکھلا ہے۔ وہ یہ پوچھتے ہیں کہ کیا انسانی حقوق کی پامالی کرنے والے سعودی شاہی خاندان کی پشت پناہی نہیں کر رہا؟
اور کس طرح امریکہ سابق مصری صدر حسنی مبارک کی مالی امداد کرتا رہا؟
اور وہ مغربی دوغلی پالیسی کی واضح ترین مثال 1992ء میں الجیریا میں ہونے والے انتخابات کی دیتے ہیں۔ جب ایف ایس اے پارلیمانی انتخابات جیت گئی تھی تو فوج کی مداخلت کے بعد مغرب نے سکھ کا سانس لیا تھا۔ فوج نے ایف ایس اے پر پابندی لگائی اور اس کے بہت سے اراکین کو گرفتار کر لیا۔
ریڈیکل اسلام پسندوں کے اقتدار میں آنے کا سب سے زیادہ خوف اسرائیل محسوس کرتا ہے۔ چاہے یہ مشرقِ وسطیٰ کی سب سے ترقی یافتہ جمہوریت ہو لیکن اس وقت کیا ہو گا جب عربوں کی اسرائیل دشمنی کو جمہوری اظہار مل جائے۔
اگر مشرقِ وسطیٰ کی حکومتیں وہ کریں جو ان کے عوام چاہتے ہیں تو اسرائیل کے لیے مسئلہ ہو جائے گا۔
یہ مسئلہ اس وقت کھل کر سامنے آیا تھا جب 2006ء میں فلسطینی علاقوں میں حماس انتخابات جیتی تھی۔ اسرائیل اور سبھی مغربی حکام نے ان کے نو منتخب رہنماؤں سے ملنے سے اس لیے انکار کر دیا تھا کہ حماس نے پہلے کہا تھا کہ وہ اسرائیل کی تباہی چاہتے ہیں۔
چند مہینوں میں ہی بہت سے حماس کے منتخب رہنما اسرائیلی کی جیلوں میں تھے۔
مغرب کے جمہوریت کے متعلق وسوسے مصر میں اخوانِ المسلیمون کے انتخابات جیتنے کے بعد بھی نظر آئے۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ دولتِ اسلامیہ اور القاعدہ دونوں ہی اخوان المسلیمون کے جمہوری طور پر اقتدار حاصل کرنے کے طریقے کو رد کرتے ہیں۔
لیکن اخوان کے چیلنج سے سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے دوسرے آمریت پسند رہنما خائف تھے اور انھوں نے مغرب کو قائل کیا کہ وہ مصر میں صدر مرسی کی حکومت کا رسک نہیں لے سکتے۔
مصری فوج اور انتخابات کے نتائج کو نہ مانتے ہوئے سڑکوں پر آنے والے مظاہرین انھیں محفوظ حل لگا۔
یہ پالیسی قابلِ فہم احتیاط کا نتیجہ ہے۔ کس طرح مغربی رہنما اخوان کی اس یقین دہانی پر بھروسہ کر سکتے ہیں کہ اس کی پہلی انتخابی جیت کے بعد وہ اسلامی ریاست کے قیام کے لیے زیادہ مستقل بنیادوں پر قبضہ نہیں کرے گا۔
لیکن اخوان کی حکومت کی حمایت نہ کرنے سے مغرب نے ریڈیکل اسلام پسندوں کے سپرد ایک اور جیت کر دی ہے۔ ’وہ اب یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’اخوان کو ووٹ دینے کا کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ اگر وہ جیت بھی جاتے ہیں تو انھیں اقتدار نہیں دیا جائے گا۔ اس سے بہتر ہے کہ آپ ہمارے ساتھ لڑائی میں حصہ لیں۔‘
حقیقت میں تیونس میں سیاسی پیش رفت سے لگتا ہے کہ جمہوریت پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ وہاں اخوان مسلیمون جیسی ہی جماعت حرکۃ انھضۃ عرب سپرنگ کے بعد انتخابات جیت گئی اور اس کے بعد سمجھوتے کے لیے بھی تیار ہو گئی۔
یہاں تک کہ نئے آئین پر وسیع معاہدے کے لیے وہ رضاکارانہ طور پر اقتدار سے علیحدہ بھی ہو گئی۔
لیکن تیونس ہمیشہ ہی غیر اہم رہا ہے۔ مصر کی زیادہ اہمیت ہے۔ اور لبرلز اور اخوان کے رہنماؤں کو صدر سیسی کی جیلوں میں بھیجنے کے بعد میدان جہادیوں کے لیے کھلا ہے کہ وہ یہ بتا سکیں کہ کس طرح قاہرہ کی جابرانہ حکومت کے خلاف مزاحمت کرنی ہے۔
یہ مسئلہ پورے خطے کو متاثر کرتا ہے۔ یہ تضادات شام میں سب سے زیادہ نمایاں ہیں۔ مغربی حکومتیں اب بھی صدر بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ چاہتی ہیں لیکن اس کے ساتھ انھیں اس خوف کی وجہ سے ہچکچاہٹ بھی ہے کہ ان کے جانے بعد کیا ہو گا۔
بشار الاسد کے بعد کا شام کیسا لگے گا؟ شام کے انتخابات کا نتیجہ کیا ہو گا؟ کیا سنی اسلام پسند اقتدار میں آ جائیں گے؟ مغرب اور اسرائیل کو اس سے کیا حاصل ہو گا؟
مغرب مشرقِ وسطیٰ میں جمہوریت، آزادی اور سکیورٹی کی خواہش سے دولتِ اسلامیہ اور القاعدہ کو شکست دینے میں ناکام رہا ہے اور اس کی کسی حد تک وجہ جمہوریت لانے میں تضاد اور اس کے نتائج کا خوف بھی ہے۔