سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ جسم کی موت کے بعد بھی زندگی ختم نہیں ہوتی ہے اور یہ ہمیشہ کیلئے رہ سکتی ہے۔ یہ کم وبیش وہی فلسفہ ہے جو کہ روح کے متعلق ہے جس کے مطابق جسم کو موت آجاتی ہے جبکہ روح کی صورت میں زندگی ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ اس نئے نظریئے کو ڈاکٹر رابرٹ لانزا نے پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر رابرٹ لانزا نیویارک ٹائمز کی ریٹنگ کے مطابق بقید حیات سائنسدانوں میں تیسرے بہترین سائنسدان ہیں، ایسے میں ان کی جانب سے اس دعوے کو بہت زیادہ اہمیت دی جارہی ہے۔
ڈاکٹر لانزا نے یہ نظریہ اپنی کتاب ’’بائیو سینٹرازم: ہاؤ لائف اینڈ کونشیئس نیس آر دی کیز ٹو انڈرسٹینڈنگ دی نیچر آف دی یونیورس‘‘ میں پیش کیا ہے۔ اس سے قبل انہیں متعدد ایسے جانوروں کی نسلیں بچانے کیلئے مانا جاتا ہے جن کی نسلیں معدوم ہونے کے قریب تھیں تاہم حال ہی میں ان کی دلچسپی کوآنٹم فزکس اور ایسٹروفزکس میں پیدا ہوگئی تھی۔ ڈاکٹر لانزا کہتے ہیں کہ ٹائم اور سپیس جنہیں ایسٹرو فزکس میں بنیادی حیثیت حاصل ہو، کچھ بھی نہیں بلکہ یہ محض انسان کی سمجھ کیلئے آسان طور پر بیان کی گئی کچھ اشیا ہین۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان اپنے گرد سپیس اور ٹائم کو محض ایک کچھوے کے خول کی طرح لئے پھرتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کچھوا ان کے بغیر بھی زندہ رہتا ہے، اسی طرح انسان بھی خلا اور وقت کی قید سے آزاد ہونے (یعنی کہ موت کا شکار ہونے) کے بعد بھی زندہ رہتا ہے۔ ڈاکٹر لانزا کے مطابق شعور کی موت میں کوئی حقیقت نہیں ہے، یہ فلسفے محض اس لئے جنم لئے کیونکہ انسان اپنی شناخت جسم سے کرتا ہے اور اسی لئے یہ سمجھتا ہے کہ جسم کی موت کے ساتھ ہی زندگی بھی ختم ہوجاتی ہے تاہم اگر جسم ویسے ہی شعور وصول کرتا رہے جیسا کہ ایک کیبل باکس سیٹلائٹ سے سگنلز وصول کرتا ہے توایسے میں ان سگنلز کو وصول کرنے کیلئے کسی ٹھوس جسم کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ درحقیق ، شعور وقت اور جگہ کی قید سے آزاد حقیقت ہے جو کہ انسانی جسم میں بھی ہوسکتا ہے اور اس کے باہر بھی۔
ڈاکٹر لانزا کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ہماری کائنات کی طرح دیگر متعدد کائناتیں بھی ہوسکتی ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ جسم ایک کائنات میں مر جائے تاہم دوسرے میں زندہ ہو اور وہاں وہ اس شعور کودوبارہ حاصل کرچکا ہو جو کہ اس کائنات کے حساب سے ختم ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر لانزا کے نظریئے کے مطابق مرنے کے فوری بعد انسان جنت یا جہنم میں نہیں جاتا بلکہ وہ موت کی وادی سے گزر کے کسی دوسری دنیا میں جاسکتا ہے جہاں وہ دوبارہ زندگی گزارے۔ متوازی دنیاؤں کا تصور نیا نہیں ہے ۔اسے سب سے پہلے ایچ جی ویلز نے دی ڈور ان دی وال نامی ناول میں پیش کیا تھا اور تب سے اب تک متعدد افراد اس موضوع پر قلم اٹھا چکے ہیں تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ جب کسی ماہر نے روح کے فلسفے کو شعور کا نام دے کے قبول کیا ہے۔