فلپائن میں تقریباً 40 سال سے جاری مزاحمت اور ایک لاکھ بیس ہزار افراد کی ہلاکت کے بعد علیحدگی پسند تنظیم مورو اسلامی محاذ نے ہتھیارڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت اور تنظیم نے مشترکہ بیان میں اس بات کا اعلان کیا۔ حکومتی مذاکرات کار مریم کورونیل فیریر نے بتایا ہے کہ پہلے مرحلے میں تنظیم کے 154 کارکن ہتھیار ڈالیں گے جس کے لیے منعقدہ تقریب میں صدر بینی گنیو اکوینو اور ارکان پارلیمان بھی شرکت کریں گے۔
فیریر نے کہا کہ تنظیم کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کا مقصد ملک کے مفاد میں امن و امان کو بحال کرنا ہے جو کہ خوش آئند ہے۔ یاد رہے کہ حکومت اور تنظیم کے درمیان گزشتہ سال مارچ میں امن معاہدہ طے پایا تھا۔ کوالالمپور میں ہوئے مذاکرات میں حکومت فلپائن اور اس ملک کے جنوب میں سرگرم عمل مورو اسلامی محاذ آزادی فلپائن کے جنوبی صوبے منداناؤ کے قدرتی وسائل کی تقسیم پر متفق ہو گئے تھے۔
ان مذاکرات میں جس دستاویز پر دستخط کئے گئے، اس میں پہلے طے شدہ دو طرفہ سیاسی معاھدے کی وضاحت بھی کی گئی ۔ بالخصوص اس میں کہا گیا تھا کہ منداناؤ میں مسلمانوں کے موجودہ خود انتظامی علاقے کی بجائے اس سے زیادہ علاقہ قائم کیا جائے گا جس کا نام منگسا مورو رکھا جائےگا۔واضح رہے کہ مورو اسلامی محاذ آزادی یا مورو اسلامک لبریشن فرنٹ جنوبی فلپائن میں متحرک ایک گروپ ہے جو منڈا ناؤ اور سولو کے علاقوں میں متحرک ہے۔
1977ء میں جب مورو قومی محاذ آزادی کے سربراہ نورمیسواری نے فلپائنی حکومت کے ساتھ معاہدہ کی تو اس کی تنظیم سے بہت سے لوگ الگ ہو گئے۔ جنہوں نے ”نئی قیادت“ کے نام سے الگ گروپ بنا لیا۔ جو پہلے قاہرہ (مصر) اور بعد میں لاہور (پاکستان) سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھا۔ بعد میں یہ گروپ جنوبی فلپائن میں مسلح جدوجہد کرنے لگا۔