یہ 2001ء کی یکم اپریل تھی جب خبر آئی کہ سابق یوگو سلاوی صدر سلوبودان ملا سووچ کو 36 گھنٹوں کے محاصرے اور گولیوں کے آزادانہ تبادلے کے بعد گرفتار کر لیا گیا ہے۔ دنیا کے بیشتر لوگوں نے اس خبر پر نگاہ ڈالی اور بھول گئے لیکن وہ لوگ اس خبر کو سرسری کیسے لیتے جنھوں نے برسوں فاقے کاٹے، بھوک کی وجہ سے اپنے محبوب بچوں اور مشفق و مہر بان بوڑھوں کو لمحہ لمحہ موت کے اندھے کنویں میں اترتے دیکھا۔
سرائیوو کا شہر جس طرح قتل کیا گیا، اسے لمحہ بہ لمحہ مرنے پر جس طرح مجبور کیا گیا، وہ بیسویں صدی کی آخری دہائی کی ایک درد ناک داستان ہے۔ نسلی صفائی جس انداز میں کی گئی وہ ناقابل یقین ہے۔ انسان، انسانوں کے ساتھ کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ وہ بھی ان کے ساتھ جن کے ساتھ انھوں نے قہقہے لگائے ہوں، پیڑ سے توڑ کر جھڑبیریاں کھائی ہوں، دریا میں ایک ساتھ تیرے ہوں اور پہلے پہلے عشق کا راز ایک دوسرے کو سرگوشیوں میں بتایا ہو۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ بوسنیا تھا جہاں سرب نسل پرستوں نے سرائیوو جیسے حسین اور دلدار شہر کو نسلی نفرت اور قتل و غارت کے جہنم میں دھکیل دیا۔ 1992ء سے 1995ء کے درمیان بوسنیا میں جو کچھ ہوا اسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ انصاف کی تلاش میں بے قرار رہنے والوں کے لیے یہ ایک صدمہ تھا جب سرب صدر سلوبو دان ملا سووچ کو مارچ 2006ء میں موت نے رہائی دلا دی۔ اس روز ہزاروں لوگوں نے سوگ منایا اور آسمان کی طرف سر اٹھا کر گریہ کیا کہ ایک ایسے شیطان صفت انسان کو مقدمے کا اختتام ہونے سے پہلے رہائی کیوں مل گئی۔ یہ وہ شخص تھا جس نے یوگو سلاویوں کے اندر بدترین قوم پرستی کے جذبات ابھارے تھے جس کے نتیجے میں ہزار ہا مسلمان نوجوان ذبح کر دیے گئے اور پھر یہ جرم چھپانے کے لیے انھیں اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا گیا۔
دی ہیگ سے چند دنوں پہلے خبر آئی ہے کہ بوسنیا کے سابق سرب لیڈر ردووان کراؤچ کو نسل کشی اور نسلی صفائی کے جرم میں 40 برس قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔ یہ سزائیں ان ماؤں کے دل کو قرار نہیں بخشتی ہیں جنھوں نے اپنے کڑیل جوان بیٹوں کو ذبح ہوتے دیکھا یا اپنی بیٹیوں کی اجتماعی بے حرمتی کی شاہد ہوئیں۔ ان غیر انسانی واقعات کے لیے دی جانے والی سزائیں کیا واقعی سزا کہلائی جا سکتی ہیں؟ یہ سوال ہمیشہ ذہنوں میں سر اٹھاتا ہے۔
سرائیوو جیسا دلربا شہر جب ’حب وطن‘ اور ’دشمن سے نجات‘ کے نام پر محاصرے میں آیا تو اس پر کیسے ستم ٹوٹے۔ آہستہ آہستہ غذا ناپید ہوئی۔ پانی ایک عیاشی بن گیا۔ یہاں وہ عورتیں تھیں جو برسوں نہیں نہائیں۔ وہ بچے تھے جنھیں ان کی ماؤں نے پتوں اور گھاس سے صاف کیا۔ اسی شہر میں ایک لڑکی زلاٹا فلپووچ تھی جو دور دور تک پھیلے ہوئے سبزے پر اپنی سہیلیوں کے ساتھ تتلی کی طرح اڑتی پھرتی۔ گھر کے بڑوں سے کہانیاں سنتی۔ اسکول میں پیانو سیکھتی اور پہاڑے۔ زندگی سرشاری اور شادمانی سے چھلکتی ہوئی کیفیت تھی اور وہ سب آیندہ بھی اسی کیفیت میں زندگی گزارنے والے تھے لیکن پھر جنون انگیز قوم پرستی کا دیو بوتل سے نکالا گیا اور ان سب کی زندگیاں ایک عذاب مسلسل بن گئیں۔
گیارہ برس کی زلاٹا یہ سمجھنے کے قابل نہیں تھی کہ وہ اپنے گھر سے باہر کیوں نہیں جا سکتی، اس کا اسکول، اس کی استانیاں، سہیلیاں، موسیقی کا سبق سب کہاں چلے گئے۔ وہ گھر کے تہ خانے میں زندگی گزارتے ہوئے تنگ آ گئی تو اس نے اپنی ایک کاپی کو اپنا راز دار بنا لیا اور وہ اس میں روز کے واقعات لکھنے لگی۔ اس میں دوستوں کو یاد کرنے لگی اور گزرے ہوئے دنوں کی سرشاریوں کو اور ان کھانوں کی خوشبوؤں کو جواب صرف خوابوں میں اس کا دل بہلانے کے لیے آتی تھیں اور آنکھ کھلتے ہی اڑن چھو ہو جاتیں۔ اس نے لکھا:
’’یہ سیاست کیوں ہمیں ایک دوسرے سے جدا کر کے رنج اور دکھ دینے پر تلی ہوئی ہے جب کہ ہم خود جانتے ہیں کہ کون اچھا ہے کون برا؟ ہم اچھوں سے میل جول رکھتے ہیں، بروں سے نہیں، اور اچھوں میں سرب، کروٹ اور مسلمان سب ہی ہیں، اسی طرح جیسے بروں میں ہیں۔ یہ سیاست میرے پلے تو پڑتی نہیں۔ ہاں جی، میں چھوٹی ہوں، اور سیاست کا کھیل بڑے لوگ سمجھتے اور کھیلتے ہیں۔ لیکن ہم چھوٹے اس کھیل کو زیادہ اچھی طرح کھیلتے ۔ ہم یقینا جنگ کا انتخاب نہ کرتے۔‘‘
جس طرح ہماری ملالہ کی ڈائری’ گل مکئی‘ کے نام سے دنیا تک پہنچی تھی اسی طرح زلاٹا کی ڈائری کو بھی پر لگ گئے اور اس کے ذریعے یورپ اور امریکا کو معلوم ہوا کہ بوسنیا میں کیا ہو رہا ہے، سرب کیا کر رہے ہیں، اور پھر انصاف کے لیے وہ مہم شروع ہوئی جو دی ہیگ کی عالمی عدالت تک پہنچی اور نسلی صفائی، ایک شہر کے محاصرے اور دوسری بستیوں کے قتل عام کا حکم دینے والے ارد ووان کراؤچ 26 مارچ 2016ء کو اپنے انجام کو پہنچا۔
زلاٹا اب 30 برس کی ایک نوجوان عورت ہے اور لکھنا اس کے زخموں پر مرہم رکھتا ہے۔ چند برس پہلے اس کی ایک کتاب ’چرائی ہوئی آوازیں‘ منظر عام پر آئی ہے اس کتاب میں زلاٹا نے سرائیوو میں محاصرے کے دوران دوسری لڑکیوں اور لڑکوں کی کیفیات اور احساسات کو یک جا کیا ہے۔ سنڈی ہڈسن کو انٹرویو دیتے ہوئے زلاٹا نے کہا کہ جب میں نے سنا کہ میری ڈائری کو این فرینک کی ڈائری سے تشبیہ دی جا رہی ہے تو میں واقعی خوفزدہ ہو گئی۔ میں زندہ رہنا چاہتی تھی۔ یہ سوچ کر ہی مجھ پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا کہ کہیں میرا انجام این فرینک جیسا نہ ہو۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ اپریل 1992ء کا مہینہ تھا جب میں نے پہلی مربتہ گولیو ں کی آواز سنی۔ یہ جنگ کا آغاز تھا لیکن ہم میں سے بیشتر ماننے کو تیار نہیں تھے کہ جنگ شروع ہو چکی ہے۔ شروع میں شہروالوں نے امن جلوس نکالے اور ہم سمجھ رہے تھے کہ بس چند دنوں کی بات ہے جب سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔
زلاٹا کا کہنا ہے کہ جنگ شروع ہونے کا یقین ہمیں اس وقت آیا جب شہر سے کسی بھی لڑکے یا مرد کے باہر جانے پر پاپندی عائد ہو گئی۔ یہ محاصرے کا حقیقی آغاز تھا۔ ہم لوگ صدیوں سے سرائیوو میں رہتے تھے، ہم وہاں سے کہیں جانے کا تصور ہی نہیں کر سکتے تھے۔ اسکول بند ہو چکے تھے ایسے میں کچھ ٹیچروں نے آس پاس کے چند بچوں کو جمع کر کے انھیں پڑھانا شروع کر دیا۔ کسی کے بھی گھر کسی کے بھی باغیچہ میں۔ وہاں جب میری ایک ٹیچر نے کلاس میں پوچھا کہ تم میں سے کوئی ڈائری لکھ رہا ہے تو میں نے فوراً ہاتھ کھڑا کر دیا۔ وہ لمحہ میری زندگی بدل گیا۔
میری وہ ڈائری میری ٹیچر نے ایک غیر ملکی صحافی کو دے دی۔ ان دنوں ہمارے شہر میں بہت سے بین الاقوامی رپورٹر آئے ہوئے تھے۔ میری ڈائری کے صفحے دنیا میں پھیل گئے۔ کسی کو یقین نہیں آتا تھا کہ یہ گیارہ برس کی بچی کی تحریر ہے۔ یہ فرانسیسی اور برطانوی صحافی تھے جنھوں نے میرے لیے یہ ممکن بنایا کہ میں اپنے ماں باپ کے ساتھ سرائیوو سے نکل جاؤں۔ ہمارے لیے یہ صدمے کی بات تھی کہ ہم اپنے خاندان، پڑوسیوں اور دوستوں کو محاصرے کی حالت میں چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ پھر کب ان سے مل سکیں گے یا جنگ انھیں نگل جائے گی۔
زلاٹا پیرس پہنچنے کے پہلے دن کو یاد کرتی ہے تو کہتی ہے کہ ہمیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ بجلی ہمارے کمرے اور پورے شہر کو روشن کیے ہوئے ہے۔ نلوں میں پانی آ رہا ہے۔ ہم نہا سکتے ہیں۔ گلیوں میں گھوم سکتے ہیں اور جو چاہیں وہ کھا سکتے ہیں۔ زلاٹا، ملالہ، این فرینک اور ایسی ہی کئی دوسری لڑکیاں جنھوں نے جنگ اور محاصرے کے شب و روز کو لفظوں میں بیان کیا، دراصل یہ بیان ہم سب کے لیے ہے۔ ان کے لفظ ہمیں بتاتے ہیں کہ بیمار قوم پرستی، نسلی، لسانی، سیاسی اور مذہبی جنون کی بنیاد پر انسانوں سے نفرت کتنے خوفناک اور الم ناک واقعات کا آغاز ہوتی ہے۔ یہ شرفِ انسانی کو کھا جاتی ہے اور ہمیں حیوان بنا دیتی ہے۔
ہم ان دنوں قومیت، لسانیت، سیاست اور مذہب کی بنیادوں پر جس انتہا پسندی اور تشدد آمیز رویوں کا شکار ہو رہے ہیں، ان کے بارے میں ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ سیاسی مخالفت کو ان انتہاؤں پر نہ لے جائیں جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔ پاکستان مختلف قوموں، نسلوں اور مسلکوں پر مشتمل ملک ہے جہاں سیاسی انتہا پسندی کی آگ سب کو اپنے لپیٹ میں لے لے گی۔ وہ دن کبھی نہ آئے کہ ہمارے یہاں بھی زلاٹا اور این فرینک جیسی ڈائریاں لکھی جائیں۔ ہمیں اصلاح نفس کی ضرورت ہے، پاکستان 1971ء میں یوگو سلاویہ کی طرح ٹوٹ چکا ہے۔ اسے دوبارہ یوگوسلاویہ بنانے کی کوشش نہ کی جائے۔