شہر کی سڑکوں پر بھاگتے دوڑتے چنگ چی رکشے یا موت کے فرشتے پورے پاکستان میں دھواں چھوڑتے ، شور مچاتے اور پلوشن پھیلاتے یہ چاندگاڑیاں ہر قانون سے مادر پدر آزاد 12سے16سال کے نابالغ بچے ان چاندگاڑیوں کے ڈرائیور کم پائلںٹ کیونکہ یہ چلاتے کم ہیں اور اڑاتے زیادہ ہیں پاکستان کے ہر شہر اور گاؤں میں قانون کی کھلی آنکھوں میں دھول جھونک کر موت بانٹتے پھرتے ہیں اور قانون خاموش تماشائی ہے جس سے لگتا ہے کہ قانون کے رکھوالوں کی آنکھوں کو چمک نے چندھیا دیا ہے جس کی وجہ سے ڈرائیونگ کے ہر اصول کو ایک سرخ نوٹ کے نیچے دبا دیا گیا ہے واہ رے قائد اعظم تیرا پاکستان .
ایک حالیہ سروے کے مطابق 67 سالوں میں پاکستان میں پچاس ہزار لوگ دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں جبکہ روڈ ایکسیڈنٹ میں مرنے والوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ یعنی 55 ہزار ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کا کوئی پرسان ِحال نہیں . حکومت نے قانون سازی کر کے اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں اور عمل درآمد کرانے والوں نے اس قانون کے طفیل اپنی جیبیں بھرنا شروع کر دی ہیں .
پوری دنیا میں ایک قانون موجود ہے کہ 80 فیصد لوگ پیدل چلتے ہیں اور فلاحی حکومتیں سڑکیں بناتے وقت سب سے پہلے ان پیدل چلنے والے شہریوں کا خیال رکھتی ہیں اور سڑکوں کے ساتھ فٹ پاتھ کو لازمی قرار دیتی ہیں . فٹ پاتھ تو پاکستان میں بھی بنتے ہیں لیکن پاکستان کے یہ فٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کے لئے نہیں بلکہ کاروبار کرنے والوں کےلئے بنتے ہیں جن کا کاروبار بلدیہ کے اہلکاروں اور قانون نافذ کرنے والے رکھوالوں کی جیبیں بھرنے کے کام آتے ہیں اس لئے پیدل چلنے والوں کو مجبورآ سڑکوں کے بیچوں بیچ چلنا پڑتا ہے جس سے روڈ ایکسیڈنٹ میں اضافہ ہوتا ہے کیا ہمارے ارباب اختیار نے کبھی اس بات کا بھی خیال کیا کہ آٹا ، دال ، چاول ،گھی ، چینی اور غرض ہر کھانے پینے والی اشیاء پر 15سے25 فیصد تک ٹیکس دینے والے یہ 80 فیصد غریب غرباء اور پسماندہ لوگ جو سڑکوں پر کتوں کی طرح مر جاتے ہیں اور ان کو مارنے والے پیچھے مڑ کر یہ دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے کہ وہ زندہ ہے یا مر گیا . زخمی ہوا ہے تو اس کو ہسپتال ہی پہنچا دیا جائے شائد زندہ بچ جائے لیکن ہمارے حکمرانوں نے تو ایسی قانون سازی کی ہوئی ہے کہ اللہ کی پناہ .
آج پوری دنیا میں انفلیشن ریٹ کم ہوا ہے پچھلے چند سالوں سے جو مہنگائی کا طوفان ہر شے کو اپنے سا تھ بہائے لئے جا رہا تھا اسے بریک لگی ہے بلکہ واپسی کا گیئر بھی لگ گیا ہے اور پوری دنیا میں ضروریات زندگی کی ہر شے کے دام گھٹ کر اپنی اصل کی طرف واپس لوٹ رہے ہیں لیکن قسم ہے ہمارے ان تاجر حکمرانوں کو کہ وہ ایسا کوئی کام کر دیں جس سے پاکستان کی غریب عوام کا بھلا ہو اور نہ ہی یہ بات ہمارے ان بزنس مین بادشاہوں کو وارہ کھاتی ہے ویسے بھی تاجر حکمرانوں کے بارے میں آج سے تین ہزار سال قبل دنیا کا سب سے بڑا فلسفی اور دانشورسقراط نے کہہ گیا تھا کہ تاجروں کو کبھی اپنا حکمران نہ بنانا ورنہ یہ تمہاری ہڈیاں بھی بیچ کھائے گا .
کیا پاکستان کی غریب عوام کے ساتھ یہی کچھ نہیں ہورہا کہ انفلیشن ریٹ کم ہونے کی وجہ سے ضروریات زندگی کی اشیاء کے دام کم ہونے سے روکنے کے لئے تاکہ پاکستان کے غریبوں کا بھلا نہ ہو جائے اور ان کو یہ اشیاء سستے داموں نہ مل جائیں بادشاہ وقت کے سمدھی وزیر خزانہ نے 431 اشیاء پر ٹیکس بڑھا کر ان کے داموں کو کم ہونے سے روک دیا ہے تاکہ پاکستان کے غریبوں کی جیبوں پر ڈاکہ مارا جا سکے صرف اسی پر اکتفا نہیں بلکہ 325 ارب روپیہ ٹیکس ریبیٹ کی شکل میں اپنی تاجر برادری کو واپس کرنے کے لئے ایف بی آر کو حکم بھی دے دیا گیا ہے کہ وہ ٹیکس ریفنڈ کردے کیوں ؟
کیسا ہے ہمارے ان تاجر حکمرانوں کا عوام دوست رویہ غریبوں کو مارو اور اپنوں کو نوازو ، جب حکومتیں عوام دشمن رویہ اپنا لیں تب ریلف کے لئے عدلیہ اپنا کردار ادا کرتی ہے اور ایسا منظر ہماری آنکھوں نے سابقہ حکمرانوں کے دور میں ملاحظہ بھی کیا جب ایک وزیر اعظم کو گھر جانا پڑا اور دوسرا وزیر اعظم ہر روز عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہوتا تھا اس میں کچھ کمیاں ، کوتاہیاں اور خامیاں یقینآ حکومت وقت کی بھی ہوں گی لیکن ایسی عدالت روئے زمین پر شائد ہی کوئی دوسری ہو جس نے چینی کی قیمت سے لیکر اسٹیل مل کی نجکاری تک اور بجلی کے سودوں سے لیکر بیرون ملک سفارت کاروں کی تعیناتی تک کے معاملات اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کی ہو لیکن کیا اب سب کچھ درست ہو گیا ہے اور راوی ہر طرف امن ، چین ، سکھ ، انصاف اور ترقی کا گن گا رہا ہے جو ہماری عدلیہ ہر طرف چین ہی چین لکھ رہی ہے یا ان کے درمیان ایک خاموش اتفاق رائے ہو گیا ہے کہ بس اب بہت ہو چکا جبکہ میڈیا کا نیرو بھی چاروں جانب سکھ ، چین اور امن کی بانسری بجا رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ خود کو بڑا عوام دوست بنا کر پیش کر رہا ہے اینکرز خود کو رابن ہڈ سمجھ رہے ہیں جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ان کا تمام جہاد صرف اپنے مالکان کو فائدہ پہنچانا ہے پاکستانی عوام جائے بھاڑ میں یا روزانہ رات کو 11 بجے ٹی وی آف کرے اور ٹینشن فری ادویات کھا کر سو جائے.(تحریر..خالد شیخ)