سرمایہ دارانہ نظام نے ویسے تو انسانوں کو بے شمار خانوں میں تقسیم کرکے رکھا ہے لیکن دو تقسیمیں ایسی ہیں، جن کا ایک دوسرے سے بہت گہرا تعلق ہے ایک طبقاتی تقسیم جس نے انسانوں کو غریبوں اور امیروں میں تقسیم کردیا ہے، دوسری سیاسی تقسیم جس نے سیاسی کارکنوں کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ تقسیم خواہ کسی حوالے سے ہو اس کا نقصان غریب طبقات ہی کو اٹھانا پڑتا ہے۔ پچھلے دنوں ٹی وی چینلوں پر برسر اقتدار جماعت مسلم لیگ (ن) کے جانثاروں کو ڈنڈے اٹھائے نعرے لگاتے دکھایا گیا۔ عموماً اس قسم کے شوز میں کرائے کے آدمی لائے جاتے ہیں لیکن کرائے کے لائے ہوئے ان لوگوں کا تعلق بھی غریب طبقات ہی سے ہوتا ہے جو اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے معمولی اجرت پر ڈنڈے اٹھاتے ہیں اور ایک دوسرے کو مرنے مارنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔
(ن) لیگ کے ان ڈنڈے برداروں کے جواب میں تحریک انصاف کی طرف سے بھی جوابی بلے باز، ڈنڈے لہراتے ہوئے نظر آئے ان کا تعلق بھی غریب طبقات ہی سے ہے۔ سیاسی کارکنوں کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی سیاسی حوالوں سے اس طرح تقسیم کردیا جاتا ہے کہ ان کی طاقت نہ صرف بٹ جاتی ہے بلکہ خون خرابے تک پہنچ جاتی ہے۔
ہمارے پسماندہ ترین ملک میں جو سیاسی پارٹیاں موجود ہیں، ان کا اپنا ایک منشور ہوتا ہے جس میں عوام کی حالت بدلنے عوام کے مسائل حل کرنے کے وعدے موجود ہوتے ہیں، تھوڑے بہت اختلاف کے ساتھ تمام سیاسی جماعتوں کے منشور ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ چالاک سیاست دان منشوری وعدوں کے ساتھ انتخابی نعرے بھی ایجاد کرتے ہیں جن سے عوام کو متاثرکرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے پی پی پی کا نعرہ ’’روٹی کپڑا اور مکان‘‘ بڑا مقبول اورمتاثرکن نعرہ تھا جس کی آواز بازگشت آج بھی کبھی کبھی سنائی دیتی ہے۔
روٹی کپڑا اورمکان کا نعرہ بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں لگایا گیا، اب ہم اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں جی رہے ہیں۔ اس نعرے کو ایجاد کیے ہوئے اب لگ بھگ پچاس سال ہورہے ہیں لیکن آج بھی اس ملک کے 20 کروڑ عوام روٹی کپڑے اور مکان کی امید پر جی رہے ہیں ہمارے ملک میں سیاسی جماعتوں کے منشور اور نعرے ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں ان منشوروں اور نعروں کے حوالے سے جو اصل میں سرمایہ دارانہ جمہوریت کا ایک پھندا ہوتے ہیں اصل مقصد عوام کو نہ صرف تقسیم کرنا ہوتا ہے بلکہ ایک دوسرے سے برسر پیکارکرکے ان کی اجتماعی طاقت کو توڑنا اور تقسیم کرنا ہوتا ہے۔ ان منشوروں کا واحد مقصد ’’اسٹیٹس کو‘‘ کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ 69 سالوں سے چہروں کی تبدیلی کے اس فراڈ کو عوام بھگت رہے ہیں۔
ارب پتیوں کی ان مالدار سیاسی پارٹیوں کا سب سے بڑا حربہ پروپیگنڈا ہوتا ہے۔ برسر اقتدار پارٹیاں تو جماعتی پروپیگنڈا کے لیے عوام کی اربوں کی دولت کو اپنے باپ دادا کی دولت کی طرح لٹاتی ہیں اور مالدار اپوزیشن بھی جماعتی وعدوں اور منشور کے نام پر کیے جانے والے پروپیگنڈا پر کروڑوں روپے لگاتی ہیں۔
اس پرفریب جمہوریت کی سرپرستی ہر ملک کا سرمایہ دار طبقہ کرتا ہے اور بڑی اور اقتدار میں ممکنہ طور پر آنے والی جماعتوں کی انتخابی مہم پراربوں کی سرمایہ کاری کرتا ہے جب ان کی حمایت یافتہ جماعت برسر اقتدار آتی ہے تو یہ سیاسی سرمایہ کار طبقہ مختلف حوالوں سے اپنے لگائے ہوئے سرمائے سے دس بیس گنا زیادہ سرمایہ واپس لے لیتا ہے اور برسر اقتدار آنے والے خاندان تو دولت کے انبار لگا لیتے ہیں بے چارے غریب عوام جو احمقانہ طور پر انتخابات میں ’’اپنی پسند کی‘‘ پارٹی کو ووٹ دے کر بڑے نازاں رہتے ہیں۔
انتخابات کے بعد دودھ کی مکھی کی طرح باہر نکال کر پھینک دیے جاتے ہیں ان کے ووٹ ملکوں کی سربراہی کرنے والے اور اعلیٰ ترین مناصب پر فائز ہونے والے اگلے الیکشن ہی میں عوام کے سامنے آتے ہیں۔
کیا ہمارے دینی رہنما اس حقیقت سے واقف نہیں کہ بیسیوں جماعتوں میں تقسیم مذہبی جماعتوں کی وجہ سے عوام بھی بیسیوں جماعتوں میں تقسیم ہوکر رہ گئے ہیں۔ اور ان کی اجتماعی طاقت پارہ پارہ ہوکر رہ گئی ہے سرمایہ دارانہ سیاست کا اصل مقصد عوام کو تقسیم کرکے ان کی اجتماعی طاقت کو توڑنا ہوتا ہے تاکہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف متحد ہوکر آواز نہ اٹھا سکیں۔ کیا مذہبی جماعتیں بھی عوام کو فرقوں فقہوں کے حوالے سے تقسیم کرکے ان کی اجتماعی طاقت کو نہیں توڑ رہی ہیں؟
ہماری سیاسی پسماندگی کا عالم یہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں تو سیاسی جماعتوں اور ان کے منشور کے حوالوں سے عوام کو تقسیم کیا جاتا ہے لیکن ہماری اشرافیائی جمہوریت میں تو اشرافیائی خاندانوں اور اشرافیائی شہزادوں کے نام عوام کو تقسیم کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ہمارے عوام کی وفاداری جماعتوں اور ان کے منشوروں سے نہیں ہوتی بلکہ اشرافیائی بادشاہوں، شہزادوں اور شہزادیوں سے ہوتی ہے۔
ہماری ذہنی پسماندگی ملاحظہ ہو کہ عوام کی سیاسی تقسیم کے علاوہ ہمارے ملک میں زبان، قومیت، فرقہ و فقہ سمیت کئی حوالوں سے عوام کو تقسیم کرکے رکھ دیا گیا ہے اور اس تقسیم کو اس قدرگہرا بنادیا گیا ہے اس کے خلاف اگر منظم مہم نہ چلائی گئی تو یہ تقسیم کئی نسلوں تک ختم نہیں ہوگی جس کا خمیازہ خود عوام کو بھگتنا ہوگا۔