میلہ کمیر حضرت خواجہ محمد پناہؒ کے عرس پر لگایا جاتا ہے اور امسال یہ 202 واں عرس منایا جا رہا ہے۔ عرس انگریزی مہینہ کے حساب سے 31 مارچ، اسلامی مہینے کے مطابق نو رجب اور چیتر کی 18 تاریخ کو منایا جاتا ہے۔ساہیوال میں میلہ کمیر مقامی سطح پر ہونے والے تمام عرس میں سب سے بڑا عرس مانا جاتا ہے جس میں ایک اندازے کے مطابق 10 لاکھ سے زائد زائرین شرکت کرتے ہیں۔دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ عرس سے زیادہ میلہ کی شہرت زیادہ رکھتا ہے۔میلہ کمیر میں جہاں دور دراز کے علاقوں سے زائرین کی کثیر تعداد میلے میں شرکت کرتی ہے وہی تاجر حضرات کی بھی ایک بڑی تعداد دور دراز کے علاقوں سے روزی کمانے کے لیے آتی ہے۔
ہر سال کی طرح امسال بھی میلے کے آغاز سے قبل ہی 50 کنال سے زائد رقبہ پر مختلف اقسام کے سٹال لگ جاتے ہیں جو میلے سے پانچ، چھ دن بعد تک بھی دن رات لگے رہتے ہیں۔میلے کی وجہ سے جہاں مقامی دکانداروں کا کاروبار چمک اٹھتا ہے وہی پردیس سے آئے تاجر بھی خوب کمائی کرتے ہیں۔
دربار کے بالمقابل ٹانگریاں فروخت کرنے والے قمر عباس بتاتے ہیں کہ وہ 14 سال سے باقاعدگی کے ساتھ میلہ کمیر میں سٹال لگا رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ وہ کمیر کے ہی رہائشی ہیں اور مین بازار میں ان کی دکان موجود ہے تاہم میلے کے دنوں میں وہ دکان کے علاوہ سٹال بھی لگا لیتے ہیں۔”عام دنوں میں جہاں دو ہزار روپے یومیہ سیل ہوتی ہے میلے کے دنوں میں سیل دو سے اڑھائی لاکھ روپے تک ہو جاتی ہے۔”
قمر کا کہنا تھا کہ میلے کے علاوہ کمیر کے بازار نو بجے تک بند ہونا شروع ہو جاتے ہیں لیکن میلے کے دنوں میں ساری رات بازار کھلے رہتے ہیں۔لاہور سے میلہ کمیر میں آنے والے تاجر اعجاز احمد بتاتے ہیں کہ وہ اپنے بیوی، بچوں سمیت کھلونوں کا سٹال لگانے کے لیے دو سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے آئے ہیں۔
"میں پورے سال میں چار مختلف میلوں پر سٹال لگاتا ہوں جن میں شیر گڑھ میں لگنے والا میلہ بابا داود بندگی، دیپالپور میں پیر گودھا کا میلہ، چن پیر سرکار کا میلہ اور میلہ کمیر شامل ہیں۔”ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے سٹال کے لیے جو جگہ منتخب کی ہے وہاں دو سو سے تین سو روپے فی مربع فٹ کے حساب سے جگہ کرایے پر ملتی ہے جبکہ مین بازار میں 15 سو روپے فی مربع فٹ کے حساب سے جگہ مل رہی ہے۔پاکپتن سے آنے والے تاجر خرم شہزاد کہتے ہیں کہ وہ میلہ کمیر میں 22 سال سے آ رہے ہیں۔ وہ چوڑیاں اور انگوٹھیاں فروخت کرتے ہیں۔
"تین دن کا سٹال لگانے کے لیے چھ فٹ جگہ آٹھ ہزار روپے میں لی ہے۔”
خرم بتاتے ہیں کہ پہلے تین دن مردوں کا میلہ ہوتا ہے جبکہ اس کے بعد تین دن خواتین کا میلہ ہوتا ہے۔ جس دن خواتین کا میلا شروع ہوتا ہے تب ان کی کمائی اچھی ہو جاتی ہے۔95 سالہ حاجی محمد امین میلے میں مٹھائی فروخت کرنے کے لیے بصیر پور سے آئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ وہ عرصہ 85 سال سے میلہ کمیر میں سٹال لگا رہے ہیں۔ان کے بیٹے غلام مرتضی نے بتایا کہ پہلے ان کا سٹال دربار کی دیوار کے ساتھ ہوتا تھا تاہم لیکن رواں سال تھانہ کمیر کے ایس ایچ او نے سکیورٹی مسائل کا بہانہ بنا کر اس جگہ سٹال نہیں لگانے دیا۔
"ہم تین دن سے سٹال لگانے کی اجازت کے منتظر ہیں۔ سٹال کا سامان ٹرک پر لوڈ ہونے کی وجہ سے ٹرک کا کرایہ آٹھ ہزار کی بجائے 16 ہزار روپے دینا پڑ رہا ہے۔”غلام مرتضیٰ کے مطابق ٹھیکیدار کو وہ سٹال کی جگہ کے لیے پیشگی 40 ہزار روپے بھی دے چکے ہیں۔ سٹال نہ لگنے کی وجہ سے انہیں پانچ سے چھ لاکھ روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ( سیدعثمان محاسن ، سجاگ کے شکریہ کے ساتھ )